نئی دہلی:بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیرِ اقتدار ریاستوں میں عیدِ قرباں کے موقع پر مسلمانوں پر گائے کے نام پر تشدد اور ہراسانی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مختلف شہروں میں ہندوتوا نظریات کے حامل گروہوں نے “گاؤ رکھشا” کے نام پر پرتشدد کارروائیاں کیں۔
حیدرآباد کے علاقے جلب پلی میں گاؤ رکھشکوں نے عید کے اگلے روز جانوروں کی باقیات لے جانے والی گاڑی کو آگ لگا دی۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق حملہ آوروں نے “جے شری رام” کے نعرے لگاتے ہوئے ڈرائیور پر حملہ کیا، اس کا موبائل اور نقدی چھین لی اور پولیس پر بھی پتھراؤ کیا۔
اسی طرح مدھیہ پردیش میں بقرعید کے دن گائے کے بچھڑے کو ذبح کرنے کے الزام میں 7 مسلمان گرفتار کیے گئے اور ان سے 32 کلو گوشت ضبط کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق ریاستی حکومت نے فوری کارروائی کا حکم دیا۔
کرناٹکا کے کمل نگر اور بیدر میں بھی گائے کے ذبح کے الزامات پر ہندوتوا کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے، دکانیں بند کرائیں، اور پولیس کے دباؤ پر متعدد مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا۔
ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ آسام میں عید الاضحیٰ کے موقع پر پانچ اضلاع میں مویشی ذبح کرنے کے الزام میں 16 سے زائد مسلمانوں کو آسام مویشی تحفظ ایکٹ کے تحت حراست میں لے لیا گیا۔
متھرا، اوڑیشہ اور عبرسنگھ میں بھی مشابہہ واقعات پیش آئے جہاں گائے کے گوشت کی موجودگی یا ذبح کے الزامات پر مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ بعض علاقوں میں کشیدگی اتنی بڑھی کہ مذہبی اجتماعات تک محدود کر دیے گئے۔
اسی دوران کانگریس لیڈر شاہجہان میاں کے خلاف انتقامی کارروائی دیکھنے میں آئی، جنہوں نے بی جے پی کی قربانی مخالف پالیسیوں پر تنقید کی تھی۔ ان کے گھر پر حملہ کیا گیا اور ان پر مقدمہ درج ہوا۔
حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے اس صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ “دی وائر” کے مطابق 2014 سے 2024 تک گائے کے نام پر کیے گئے تشدد کے 97 فیصد واقعات مودی حکومت کے دوران پیش آئے۔