اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کچی آبادی کیس میں وفاقی حکومت سے کچی آبادی سے متعلق پالیسی رپورٹ 2 ہفتوں میں طلب کر لی۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے کچی آبادی کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کچی آبادی کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار صوبوں اور لوکل گورنمنٹ کا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صوبائی اختیار پر وفاقی حکومت کیا قانون سازی کر سکتی ہے، پہلے تو یہ بتایا جائے کچی آبادی کیا ہوتی ہے، بلوچستان میں تو سارے گھر کچے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ قبضہ گروپ ندی نالوں کے کنارے کچی آبادی بنا لیتے ہیں، عوامی سہولیات کے پلاٹ پر کچی آبادی مکانات بن جاتے ہیں، حکومت نے کچی آبادی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔
وکیل سی ڈی اے نے کہا کہ سب سے پہلے تو کچی آبادی کی تعریف طے کی جائے، سی ڈی اے نے دس کچی آبادیوں کو نوٹیفائی کر رکھا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ان کچی آبادی کے علاوہ کوئی قبضہ ہے تو کارروائی کرے، غیر قانونی قبضہ چھڑانے کے قوانین موجود ہیں۔
وکیل سی ڈی اے نے کہا کہ عدالت نے قبضہ چھڑانے کیخلاف حکم امتناع دے رکھا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ حکم امتناع ہے تو عدالت سے اس کو ختم کرائیں، تجاوزات کیسے بن جاتی ہے، تجاوزات کی تعمیر میں ادارے کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں، سب سے پہلے چھپر ہوٹل بنتا ہے، پھر وہاں آہستہ آہستہ آبادی بن جاتی ہے۔