ڈھاکا: بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف حکمران جماعت کے نوجوانوں اور پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور تصادم کے نتیجے میں 5 مظاہرین جاں بحق ہوگئے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش بھر میں ہزاروں طلبہ کی جانب سے کوٹہ سسٹم کے خلاف مسلسل دوسرے روز بھی احتجاج کیا جا رہا ہے جہاں پیر کو پولیس کی شیلنگ سے 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تاہم ریلیوں کے باعث اہم شاہراہیں اور ریلوے ٹریک بلاک ہوگئے تھے۔
بنگلہ دیشن کی وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف رواں برس جنوری میں مسلسل چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ عوام کی جانب سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے سرکاری نوکریوں کے لیے 1971 کی آزادی کے دوران جاں بحق افراد کے خاندانوں کے لیے 30 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے جبکہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے کی وجہ سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے طلبہ کو بے دخل کردیا اور شمالی مغربی علاقے رنگپور میں احتجاج خونی احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔
رنگپور میٹروپولیٹن پولیس کمشنر محمد منیرالزمان نے کہا کہ ہم نے احتجاج کرنے والے طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل استعمال کیے ہیں کیونکہ طلبہ ہمارے اوپر پتھراؤ کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیے گئے طالب علم دم توڑ گئے ہیں تاہم واضح نہیں ہے کہ وہ کیسے دم توڑ گئے۔
ٹی وی فوٹیجز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دارالحکومت ڈھاکا میں پولیس کی بھاری نفری حفاظتی جیکٹس اور ہیلمٹس پہنے ہوئے اور لاٹھیوں سے لیس ڈھاکا یونیورسٹی کے باہر کھڑے ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم خون سے لت پت لیٹا ہوا تھا اور اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی، اسی طرح دو طلبہ سمیت 3 افراد چٹاگانگ میں مارے گئے۔
چٹاگانگ کے مقامی پولیس چیف سیف الاسلام نے بتایا کہ ہمیں درست معلومات نہیں ہیں کہ وہ کیسے جاں بحق ہوئے کیونکہ ہم نے چٹاگانگ میں کوئی فورس استعمال نہیں کی۔
سیکیورٹی فورسز نے بیان میں کہا کہ ملک بھر میں مختلف علاقوں میں جاری جھڑپوں کی وجہ سے سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے، پیراملیٹری فورس بارڈر گارڈ کے اہلکاروں کو ملک بھر میں تعینات کردیا گیا ہے۔