کراچی:’شہنشاہ غزل’ استاد مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے 13 برس بیت گئے ہیں۔ آج بروز جمعہ ان کے مداحوں کی جانب سے ان کی برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔
18 جولائی 1927 کو ہندوستان کے شہر راجستھان میں پیدا ہونے والے مہدی حسن خان نے اپنی 25,000 سے زائد گانوں اور غزلوں کے ذریعے پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک کے لاکھوں مداحوں کے دلوں پر راج کیا۔
انہوں نے موسیقی کے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جہاں موسیقی نسل در نسل چلتی آ رہی تھی۔ انہیں اپنے والد استاد عظیم خان اور چچا استاد اسماعیل خان سے موسیقی کی بنیادی تربیت ملی، جس سے ان کی فنی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔
مہدی حسن کو اردو شاعری سے گہرا لگاؤ تھا اور انہوں نے اپنے دور کے ادبی دیو قامت شاعروں، جن میں فیض احمد فیض اور احمد فراز شامل ہیں، کی کئی غزلوں کو اپنی مسحور کن آواز سے کمپوز کیا۔
اس لیجنڈری گلوکار کو پہلی بار 1957 میں ریڈیو پاکستان پر بطور ٹھمری گلوکار موقع ملا اور اس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یہیں سے ان کا نیا سفر شروع ہوا اور انہوں نے لازوال غزلیں اور سپر ہٹ فلمی گانے گائے۔
انہیں ہر دور کا بہترین غزل گلوکار سمجھا جاتا ہے۔ بالی ووڈ کی میلوڈی کوئین لتا منگیشکر ہمیشہ مہدی حسن کی بڑی مداح رہیں، جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ “خدا ان کے گلے میں بولتا ہے۔”
“رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ”، “پتا پتا بوٹا بوٹا”، “دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے”، “گلوں میں رنگ بھرے”، “اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا”، “جب کوئی پیار سے بلائے گا” اور “دل کی بات لبوں پر لا کر” ان کے تمام ہٹ گانوں میں شامل ہیں۔
وہ احمد رشدی کے ساتھ کئی دہائیوں تک فلمی صنعت کے لیے ایک سرکردہ گلوکار رہے۔ انہوں نے اپنے موسیقی کے کیریئر کے دوران 300 سے زائد فلموں کے لیے گانے گائے۔