سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ کسی مقدمے میں محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
شناختی کارڈ اور ڈومیسائل پر رہائشی ایڈریس میں تضادات پر پرائمری اسکول ٹیچر کے تقرر سے انخراف کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی ریگولر بینچ کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن آفیسر چارسدہ بنام سونیا بیگم کیس میں اصول طے کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں اصول طے کر چکی، خیبرپختوا قانون کے تحت رہائشی ثبوت ڈومیسائل سے ثابت ہوتا ہے، آئی ڈی کارڈ سے نہیں۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ جب کسی قانونی نقطے پر فیصلہ ہو جائے تو اسے دوبارہ نہیں سنا جاسکتا۔ نظرثانی آرٹیکل 188 اور رولز کے تحت ہی ہو سکتی ہے۔ نظرثانی کے لیے فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی لازم ہے۔ محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ نظرثانی کیس میں فریق پہلے سے مسترد ہوچکا نکتہ دوبارہ نہیں اٹھا سکتا۔ نظرثانی کی بنیاد یہ بھی نہیں بن سکتی کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظربھی شامل ہوسکتا تھا۔
فیصلے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ اور سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں۔ ان زیر التواکیسز میں بڑا حصہ نظرثانی درخواستوں کا بھی ہے۔ من گھڑت قسم کی نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی نظرثانی 13 دن زائد المیعاد ہے۔ نظرثانی میرٹس پر اور زائد المیعاد ہونے پر خارج کی جاتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جسٹس محمد علی مظہر کا اضافی نوٹ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 29 فروری 2022 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی دائر کی گئی تھی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔