Home highlight یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام، ٹیکس استثنیٰ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، محمد اورنگزیب

یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام، ٹیکس استثنیٰ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، محمد اورنگزیب

Share
Share

کراچی:وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام دنیا کے سامنے ہے، درآمدات میں اضافہ بڑا مسئلہ ہے، انشاء اللہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، تاہم یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل کیا جائے گا۔
کراچی میں پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ہماری کوشش ہے حکومت کو جس جس کاروباری معاملات سے نکال سکتے ہیں نکال دیں، ملک اب نجی شعبے کو چلانا ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ 24 کروڑ لوگوں کا ملک چلانے کے لیے ہمیں ٹیکس ریونیو چاہیے، ہماری کوشش ہے ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات لائی جائیں، بزنس کمیونٹی کہتی ہے کہ ہم مزید ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن ہم ٹیکس اتھارٹی سے ڈیل نہیں کرنا چاہتے، تاہم یہ قابل عمل نہیں کیوں کہ ہم 3 سے 4 ملین لوگوں کا ملک نہیں ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہم ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ٹیکسیشن میں انسانی مداخلت کو کم سے کم سطح پر لانے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ ہراسمنٹ کا عنصر ختم ہوجائے اور جو لوگ آجاتے ہیں کہ اتنے نہیں اتنے کرلیں یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ ٹیکس سے استثنیٰ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، مینوفیکچرنگ سیکٹر سمیت ہر وہ شعبہ جات جو برآمدات کرتا ہے اور آمدنی کماتا ہے اسے ٹیکس نیٹ میں آنا ہو گا، تنخواہ دار طبقے کی زندگی کو سادہ اور آسان بنانے کی کوشش جاری ہے، 70 سے 80 فیصد تنخواہ دار طبقے کی سیلری اکاوٴنٹ میں گرتے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں سیلری کلاس کو ٹیکس ایڈوائزرز کی ضرورت نہ رہے، ان کا فارم 9 سے 10 خانوں پر مشتمل ہو، اس میں بھی آٹوفل کے آپشن والے خانے شامل ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں ہم درست سمت میں قدم اٹھا رہے ہیں، ٹیکسیشن سے متعلق بزنس کمیونٹی کی سفارشات کے لیے ہم نے جنوری میں ہی درخواست کر دی تھی تاکہ اسے بجٹ میں شامل کرلیا جائے، کئی تجارتی تنظیموں کی سفارشات ہمارے پاس آچکی ہیں، ہم نے آزادانہ تجزیہ کاروں کو بھی ساتھ ملایا ہے تاکہ دیگر ممالک کی طرح وہ بھی ہماری آزادانہ طور پر مدد کرسکیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں، ہم اس بجٹ میں کیا کرسکتے ہیں کیا نہیں کرسکتے یہ سب بھی دیکھنا ہے، بطور عوام خادم ہم نے سب شراکت داروں کے پاس جانا ہے کہ آپ اپنی سفارشات بھی دیں، ایسا نہیں ہے کہ ان سفارشات کو ردی میں ڈال دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ کابینہ نے منظوری دے دی تھی کہ ٹیکس پالیسی آفس کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے الگ رکھا جائے گا، وہ فنانس ڈویژن کو رپورٹ کرے گا، جب کوئی نیا کاروبار شروع کرتا ہے تو 5 سے 15 سال کے معاملات سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتا ہے لیکن ہم بجٹ ایک سال کے لیے اخراجات اور آمدنی کو دیکھتے ہوئے بناتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا ہے کہ اسی لیے آئندہ تسلسل کے ساتھ بزنس کمیونٹی کے لیے ٹیکس پالیسی آفس سارے معاملات دیکھے گا، ایف بی آر کلیکشن پر فوکس کرے گا، ایف بی آر کا بجٹ پالیسی میں آخری سال ہے، اس کے بعد کردار ختم ہوجائے گا۔

Share
Related Articles

جنگ نہیں چاہتے، اگر کسی نے حملہ کیا تو منہ توڑ جواب دیں گے، بیرسٹر علی ظفر

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اور سینیٹر بیرسٹر علی ظفر...

ہمیں باہر سے نہیں پہلے اندر سے خطرہ ہے،ملک کو اندر سے مضبوط کریں، علیمہ خان

اسلام آباد:بانی تحریک انصاف عمران خان کی بہن علیمہ خان کا کہنا...

ہم پہل نہیں کریں گے مگر بھارت نے کچھ کیا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، اسحاق ڈار

اسلام آباد:نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے پہلگام واقعے کے بعد...