اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد کل قومی اسمبلی کی تحلیل کے لیے صدر مملکت کو سمری ارسال کردوں گا۔
اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں منعقدہ سولر ٹیوب ویلز سے متعلق تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے شمسی توانائی کا منصوبہ شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ اُن ممالک میں بھی سول سسٹم چل رہے ہیں جہاں سورج ہر وقت نہیں ہوتا جبکہ ہمارے ملک میں سال کے 12 مہینے سورج رہتا ہے، حکومت سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے شمسی توانائی پر تمام شعبوں کو منتقل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ کل صدر مملکت کو حکومت اور اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کردوں گا، جس کے بعد معاملات نگراں حکومت کے ہاتھ میں چلے جائیں گے مگر امید ہے کہ شمسی توانائی کا منصوبہ چلتا رہے گا تاکہ مستقبل میں پاکستان اور شہریوں کو سستی بجلی مل سکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بجلی ہر طبقے اور شہری کی ضرورت ہے اور اس کی فراہمی بھی ضروری ہے، ملک میں آنے والی کسی بھی حکومت کا اولین فرض سستی بجلی فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 ماہ میں ہم نے سستی بجلی کیلیے شمسی توانائی کے منصوبے پر کام شروع کیا مگر آئی ایم ایف پروگرام اور اُس کی مشکلات کیوجہ سے پروگرام پر دھیان نہیں دے سکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ہوتا اور پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا تو ادویات کیلیے قطاریں لگی ہوتیں اور دوائیں دستیاب نہ ہوتیں، جان بچانے والی دوائیوں کے لیے لوگ مارے مارے پھرتے، پیٹرول پمپوں پر لائنیں لگی ہوتیں، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہوتے جس کو بچانے کے لیے ہم اپنی درآمدات کو مزید کم کرتے تاکہ زرمبادلہ بچا سکیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ درآمدات بند ہونے کی صورت میں صنعتیں بند ہوتیں اور بے روزگاری بڑھ جاتی، عالمی بینک ہمارے ساتھ کام نہیں کرتے اور امپورٹ کے لیے ایل سیز نہیں کھلتیں اور وہ ہمارے بینکس پر بھروسہ نہیں کرتے، ایسے میں بھیانک صورت حال پیدا ہوتی اور افراتفری مچ جاتی۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا جس کی شرائط بہت کڑی اور سخت ہیں، مگر ہم اس پروگرام کے بعد ڈیفالٹ سے بچ گئے اور اللہ نے پاکستان کو بڑی پریشانی سے بچایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ آئی ایم ایف پروگرام نہیں بلکہ مستقبل کے معاشی اہداف ہیں، ہمیں ملک کو ترقی دینے کے لیے زراعت کے پہیے کو تیزی سے گھمانا ہوگا اور سستی توانائی کے منصوبوں پر جانا ہوگا، آئی ایم ایف نے بھی توانائی پر سبسڈی دینے پر ہمارے ہاتھ پیر باندھ دیے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو مہنگی بجلی مل رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرض سے بہتر ہے کہ ہم فقیری میں زندگی بسر کرلیں اور قرض سے جان چھڑائیں۔