فلوریڈا: ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ سمندر کا ریتلا ساحل ہو یا کسی ہسپتال کا کمرہ انسان جس جگہ جاتا ہے اپنے ڈی این اے وہاں چھوڑ دیتا ہے۔ڈی این اے سے متعلق اس پیشرفت کو استعمال کرتے ہوئے گمشدہ افراد کو ڈھونڈنے اور مجرمان کا جائے وقوعہ سے تعلق جوڑنے میں بھی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
یونیورسٹی آف فلوریڈا کے محققین نے امریکا اور آئرلینڈ میں ماحول سے جمع کیے جانے والے نمونوں کا جائزہ لیا۔
ساحل کی مٹی سے حاصل کیے گئے ماحولیاتی ڈی این اے کا استعمال کرتے ہوئے معدومیت کے خطرے سے دوچار سمندری کچھووں کا مطالعہ کرنے والے محققین کا کہنا تھا کہ یہ ڈی این اے اتنے اعلیٰ معیار کے تھے کہ سائنس دان بیماریوں سے جڑے تغیرات کی نشان دہی اور قریب میں رہنے والی آبادی کے جینیاتی اجداد کا تعین کرسکتے تھے۔
ڈی این اے سے متعلق اس پیشرفت کو استعمال کرتے ہوئے گمشدہ افراد کو ڈھونڈنے اور مجرمان کا جائے وقوعہ سے تعلق جوڑنے میں بھی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
یونیورسٹی آف فلوریڈا کیپروفیسر ڈیوڈ ڈفی کا کہنا تھا کہ ڈی این اے کے یہ نمونے طبی و ماحولیات کے میدان سے لے کر آثارِ قدیمہ سے کرمنل فارنزک کے میدان میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر محققین پانی کے فضلے سے کینسر کے متغیرات کا یا آثارِ قدیمہ کی جگہوں سے انسانوں کے پوشیدہ ڈی این اے کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ یا تفتیش کار جائے وقوعہ کی فضا میں تیرتے ڈی این اے سے مشکوک افراد کی نشان دہی کر سکتے ہیں۔
سائنس دانوں کے ان تمام جگہوں سے انسانی ڈی این اے سے حاصل ہونے والے جینیاتی ڈیٹا کوحاصل کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت کے اہل ہونے کے سبب ہماری حیاتیاتی معلومات کے حوالے سے رضامندی، پرائیویسی اور سیکیورٹی کے متعلق نازک اخلاقی سوالات بھی اٹھتے ہیں۔
محققین نے خبردار کیا ہے کہ اس دریافت کو استعمال کرتے ہوئے مختلف افراد کے ڈی این اے پر مبنی معلومات بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور ان کے مخصوص علاقوں میں آمد ورفت کے متعلق بھی پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
پروفیسر ڈفی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے کی جانے والی یہ تحقیق نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولوشن میں شائع ہوئی۔